Biography

Hafeez Jalandhari (حفیظ جالندھری)

Abu Al-Asar Hafeez Jalandhari | Biography Great Poet Hafeez Jalandhari

Abu Al-Asar Hafeez Jalandhari

Nickname

لقب

Abul Al-Asar (ابولاثر)

Date of Birth

تاریخِ پیدائش

January 14, 1900

ابولاثر حفیظ جالندھری کا مختصر تعارف

ابولاثر حفیظ جالندھری [1982-1900] کا تعلق ایک گجر چوہان خاندان سے تھا، آپ ہندوستان کے شہر جالندھر میں پیدا ہوئے۔ آپ ایک معروف شاعر اور تحریکِ پاکستان کے حوالے سے ایک مسلمان رہنما کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ شاعری کے میدان میں آپ نے بے انتہا کارنامے انجام دئیے اورآپکا بہترین تعارف آپکی طویل نظم “شاہنامہ اسلام” ہے جسے اردو میں وہی حیثیت جوفارسی میں فردوسی کو حاصل ہے۔ اسکے علاوہ آپ نے آزادی کے بعد 1949 میں پاکستان کا قومی ترانہ “پاک سر زمین شاد باد” لکھنے کا اعزاز حاصل کیا۔

حفیظ جالندھری کی مشہور نظم ملاحظہ فرمائیں

Brief Introduction of Hafeez Jalandhari

Abul Lazar Hafeez Jalandhari [1982-1900] belonged to a Gujjar Chauhan family, born in Jalandhar, India. He is known as a famous poet and a Muslim leader in Pakistan Movement. In the field of poetry, He has done endless feats and his best introduction is his long poem “Shahnama-e-Islam” which has the same status in Urdu as Ferdowsi in Persian. Apart from this, he got the honor of writing the national anthem of Pakistan “Pak Sar Zameen Shad Baad” in 1949 after independence.

See the Interesting Video about Hafeez Jalandhari

 

#hafeezjalandhari #hafeezjalandharipoetry

Place of Birth

جاءِ پیدائش

Jalandhar, India (جالندھر, ہندوستان)

Resident of

وطن

Pakistan (پاکستان)

Died on

تاریخِ وفات

21 دسمبر 1982 (December 21, 1982)

Resting Place

آخری آرامگاہ

لاہور مینارِپاکستان کے قریب (Lahore, Near Minar-e-Pakistan)

Spouse

شریکِ حیات

Zeenat Begum (زینت بیگم) Anela (انیلا) – Divorced Khurshid Begum (خورشید بیگم)

Children

اولاد

He had 9 daughters (not publicly known)

مقصدِ حیات

Mission Statement

Hafeez Jalandhari participated in the Pakistan Movement and used his writings and poetry to mobilize people for the cause of independence and the creation of Pakistan. His life consisted of work. He is a poet and an orator, but he looks dim. Looking at his work, one does not feel that he was a less educated person.

جالندھری نے تحریک پاکستان میں حصہ لیا اور اپنی تحریروں اور شاعری کو حصولِ آزادی اور قیامِ پاکستان کے مقصد کے لیے لوگوں کے اندر تحریک پیدا کرنے کے لئے استعمال کیا۔ انکی زندگی کام سے عبارت تھی وہ ایک شاعر اور سخنور ہونے کے باوجود کم گو نظر آتے ہیں انکے کام کو دیکھ کر کہیں محسوس نہیں ہوتا کہ وہ ایک کم تعلیم یافتہ شخص تھے۔

ابتدائی زندگی اور تعلیم

Early Life and Education

Hafeez Jalandhari belonged to a Gujjar Family named “Chohan”, He was born on January 14, 1900 in Jalandhar of British India a neighboring city of Amritsar. His father’s Shamsuddin was a Hafiz-e-Quran. Hafeez Jalandhri received primary education up to 7 grade only, due to bad luck or poor financial position of his parents. However, one positive aspect of Hafeez’s personality was that he started writing poems in his teen age because he naturally loved poetry.

حفیظ جالندھری برطانوی ہندوستان میں 14 جنوری، 1900 میں پیدا ہوئے۔ انکا تعلق ایک پنجابی گجر چوہان خاندان سے تھا آپکے والد کا نام شمس الدین تھا، جو ایک حافظِ قرآن تھے۔ حفیظ جالندھری نے ابتدائی تعلیم مسجد میں حاصل کی بعد میں اسکول میں ساتویں جماعت تک پڑھا۔ یہ قسمت کی خرابی کہیں یا کمزور مالی حالات کے وہ ابتدائی تعلیم سے آگے نا بڑھ سکے۔ البتہ حفیظ کی شخصیت کا ایک مثبت پہلو یہ تھا کہ وہ قدرتی طور پر شاعری کو پسند کرتے تھے اور چھوٹی عمر ہی سے شاعری کرنے لگے۔

زندگی کے اہم واقعات

Important Life Events

Famous books of Hafeez’s poetry that have been officially published.

    1. Song of Songs (1925)
    2. Shahnama Islam (1928-1947) in four volumes
    3. Inflammation (1932)
    4. Talaqbat Shireen (1947)
    5. Chirag-i-Sahar (1974)

Hafeez Jalandhri had three marriages, his first marriage at the age of 17 was to Zeenat Begum with whom he had 7 daughters. In 1939, he married a foreigner, Anila, who belonged to the Eastern European country of Lithuania, with whom he had a daughter, later divorced. His first wife Zeenat Begum died in 1954. After that, he married Khursheed Begum in 1955. She also had a daughter.

One important incident in the life of Hafeez Jalandhri which may surprise you was that he had a daughter whom he loved very much. On the occasion of the anniversary of the magazine “Phool” he wrote a poem “Ek Larki Thi Chhoti Si” which he wrote especially for his daughter “Shadaan” He thought that when he will reach Jalandhar he will give the poem to his daughter. But unfortunately, on the day they reached Jalandhar, the daughter accidentally fell into the well and died in the evening.

آپکی شاعری کی مشہور کتابیں جو شائع ہوئیں

نغمہ زر (1925)
شاہنامہ اسلام (1928-1947) چار جلدوں میں
سوز و ساز (1932)
تالقبۃ شیریں (1947)
چراغِ سحر (1974)

 

حفیظ جالندھری نے تین شادیاں کیں، انہوں پہلی شادی 17 سال کی عمر میں زینت بیگم سے کی جن سے انکی 7 بیٹیاں تھیں۔ انہوں نے 1939 میں ایک غیر ملکی خاتون انیلا سے شادی کی جنکا تعلق مشرقی یورپ کے ملک لتھوینیا سے تھا جن سے انکی ایک بیٹی تھی، بعد میں ان سے طلاق ہوگئی۔ انکی پہلی زوجہ زینت بیگم کا انتقال 1954 میں ہوا۔ اسکے بعد آپ نے 1955 میں خورشید بیگم سے شادی کی ان سے بھی حفیظ جالندھری کی ایک بیٹی تھی۔

حفیظ جالندھری کی زندگی کا ایک اہم واقعہ جو آپکو مغموم کرسکتا ہے وہ یہ تھا کہ انکی ایک بیٹی تھی جس سے وہ بہت پیار کرتے تھے یہ اکتوبر 1929 کی بات ہے جب وہ سفر میں تھے اور انکے بال بچے جالندھر میں رہتے تھے۔ رسالہ “پھول” کی سالگرہ کے موقع پر انہوں نے ایک نظم “اک لڑکی تھی چھوٹی سی” لکھی جو خاص طور پر انہوں نے اپنی بیٹی “شاداں” کے لئے لکھی تھی انہوں نے سوچا جب وہ جالندھر پہنچیں گے تو اپنی بیٹی کو وہ نظم پیش کریں گے لیکن وائے قسمت کے جس دن وہ جالندھر پہنچے اسی دن شام کو وہ بیٹی حادثاتی طور پر کنویں میں گر کر جان بحق ہوگئی اور رسالہ “پھول” کا سالگرہ نمبر جس وقت ملا وہ اپنی بیٹی کو سپردِ خاک کرچکے تھے۔

اہمیت اور شخصیت کا اثر

Significance and Impact

Hafeez Jalandhri’s life is a continuous struggle. He was simultaneously a poet and editor of several magazines. He wrote many books and worked for many organizations including the armed forces. He also performed the work of awakening the nation through poetry and also undertook the moral training of the nation through his thoughts. Above all, he was the father of 9 daughters.

حفیظ جالندھری کی زندگی مسلسل جدوجہد سے عبارت ہے وہ بیک وقت ایک شاعر بھی تھے اور کئی رسالوں کے ایڈیٹر بھی رہے۔ کئی کتابیں لکھیں ساتھ ہی انہوں نے کئی اداروں کے لئے کام کیا جس میں مسلح افواج تک شامل ہیں۔ شاعری کے ذریعے قوم کو جگانے کا کام بھی انجام دیا اور اپنے افکار کے ذریعے قوم کی اخلاقی تربیت کا بیڑا بھی اٹھایا۔ ان سب سے بڑھ کر وہ 9 بیٹیوں  کے باپ تھے۔

صلاحیت اور مہارت

Skills and Expertise

Hafeez Jalandhri was unique in Urdu poetry because of his voice’s mesmerizing melody and songs. His poetry is generally based on religious, patriotic, romantic, and nature themes. His language was a fine blend of Hindi and Urdu vocabulary that reflected the complex culture of South Asia.

Jalandhri was the editor of several monthly magazines. During 1922 to 1929, he served as the editor of popular magazines like Noonhal, Hazar Dastan, Tehsib Niswan and Makhzan. He wrote numerous songs and poems. His first collection of poems, Nagham-e-Zar, was published in 1935.

Hafeez Jalandhri also has the honor of serving in the armed forces of Pakistan after independence. He held the highest official position as advisor to Field Marshal Muhammad Ayub Khan. And held a very prominent position as the Director of Writers Guild of Pakistan.

حفیظ جالندھری اردو شاعری میں اپنی آواز کے سحر انگیز راگ اور اپنے گیتوں کی وجہ سے منفرد تھے۔ ان کی شاعری عموماً مذہبی، حب الوطنی، رومانوی، اور فطری موضوعات پر مبنی ہے۔ ان کی زبان ہندی اور اردو لغت کا عمدہ امتزاج تھی جو جنوبی ایشیا کی جامع ثقافت کی عکاسی کرتی تھی۔

جالندھری کئی ماہانہ رسالوں کے ایڈیٹر رہے انہوں نے 1922 سے 1929 کے دوران نونہال، ہزار داستان، تہذیب نسوان اور مخزن جیسے مشہور رسالوں میں ایڈیٹر کے فرائض انجام دئیے۔ انہوں نے بے شمار گیت اور نظمیں لکھیں ان کی نظموں کا پہلا مجموعہ نغمہِ زر 1935 میں شائع ہوا۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد انہوں نے سونگ پبلسٹی ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر کے طور پربھی کام کیا۔

حفیظ جالندھری کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انہوں نے آزادی کے بعد پاکستان کی مسلح افواج میں بھی خدمات انجام دیں وہ افواجِ پاکستان کے اعلی عہدے پر فائز ہوئے اور شعبہ اخلاقیات کے ڈائریکٹر جنرل کے طور پر خدمات انجام دیں، بعد ازاں صدرِ پاکستان ، فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے مشیر کے طور پر اعلی ترین سرکاری عہدے پر فائز رہے۔ اور رائٹرز گلڈ آف پاکستان کے ڈائریکٹر کے طور پر ایک بہت ہی نمایاں مقام پر رہے۔

اہم کامیابیاں

Major Achievements

In the field of poetry, Hafeez Jalandhri’s poem, “Shahnama Islam” earned him incredible fame, a record of the glorious history of Islam in the style of Ferdowsi’s Shahnama. After World War II, he also worked as director of the Song Publicity Department.

On February 23, 1949, the Government of Pakistan constituted a committee to prepare the National Anthem of Pakistan. 723 people competed to write the national anthem. Out of which Hafeez Jalandhri’s poetry was selected as the national anthem of Pakistan and his song “Pak Sarzamin Shad Bad” was declared as the national anthem of Pakistan. It is said that the lyrics of this song match the music and are better than any other poet in terms of word delivery and meaning.

His most famous poem ‘Abhi To Main Jawan Hoon’ was sung by Mallika Pukhraj in the 1950s with music by Pakistani music director Master Inayat Hussain which is still very popular with the masses.

 شاعری کے میدان میں حفیظ جالندھری کی شاعری، “شاہنامہ اسلام” نے انہیں ناقابل یقین شہرت سے نوازا جو فردوسی کی شاہنامے کے انداز میں اسلام کی شاندار تاریخ کا منظوم کلام ہے جوایک ریکارڈ ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد انہوں نے سونگ پبلسٹی ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر کے طور پربھی کام کیا۔

23 فروری 1949 کو حکومت پاکستان نے پاکستان کا قومی ترانہ تیار کرنے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی۔ 723 افراد نے قومی ترانہ لکھنے کا مقابلہ کیا۔ جس میں سے حفیظ جالندھری کی شاعری پاکستان کے قومی ترانے کے طور پر منتخب ہوئی اور انکا لکھا ہوا گیت “پاک سرزمین شاد باد” پاکستان کا قومی ترانہ قرار پایا۔ کہا جاتا ہے کہ اس گیت کے بول، موسیقی کی دھن پر پورا اترتے ہیں اور الفاظ کی ادائیگی اور معنویت کے اعتبار سے کسی بھی دوسرے شاعر کے مقابلے میں بہترین ہیں۔

ان کی سب سے مشہور نظم ‘ابھی تو میں جوان ہوں’ کو ملیکا پکھراج نے 1950 کی دہائی میں پاکستانی میوزک ڈائریکٹر ماسٹر عنایت حسین کی موسیقی کے  ساتھ گایا تھا جو آج بھی عوام میں بے حد مقبول ہے۔خود حفیظ جالندھری بھی اس نظم کو ترنُّم میں سنایا کرتے تھے۔

 

وفات اور میراث

Death and Legacy

Hafeez Jalandhri died on December 21, 1982 in Lahore, at the age of 82. Buried in Model Town, Lahore, a mausoleum was later constructed for him by the Government of Pakistan and his remains were moved to a mausoleum near Minar Pakistan in Lahore, the site where Pakistan Resolution was approved.

حفیظ جالندھری کا انتقال 21 دسمبر 1982 کو لاہور، میں ہوا انکی عمر 82 تھی۔ ماڈل ٹاؤن، لاہور میں دفن کیے گئے، بعد میں حکومتِ پاکستان کی جانب سے انکے لئے مقبرہ تعمیر کیا گیا اور ان کی باقیات کو لاہور میں مینار پاکستان کے قریب ایک مقبرے میں منتقل کر دیا گیا، مینارِ پاکستان وہی مقام ہے جہاں پاکستان کے قیام کی قرارداد منظور کی گئی تھی۔

Share
Share